صرف پانچ کام ہی کر لیتے!


محمد عمران جونیجو

صرف پانچ کام ہی کر لیتے!

سندھ میں زیادہ تر لوگ ووٹ اپنے بڑوں کہ کہنے پر ہی دیتے ہیں، پھر چاہے وہ بڑا زمیندار ہو یا جاگیردار، رئیس، وڈیرا، سیٹھ ہو یا اپنا دادا، غرضکہ چاچا اور بابا ہی کیوں نہ ہو۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں کم از کم میں تو یہی حشر دیکھتا ہوا آرہا ہوں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ میں نے بھی پہلی بار اپنا ووٹ، اپنے بابا کے کہنے پرایسی پارٹی کو دیا تھا اور اب تک پچھتا رہا ہوں کہ مجھ سے ایسا سنگین ظلم کیسے ہوا۔ کیونکہ میں نے 18 سال کی عمر سے لے کر اس سال ہونے والے 36 سالوں میں صرف دو مرتبہ ہی ووٹ دیا ہے۔
مگر صاف صاف بتا رہا ہوں کہ اس بار بڑوں کی ایک بھی نہیں سُننی اور تو اور اپنی بھی نہیں سننی۔ ہاں سننی ہے تو ان معصوم بچوں کی آواز سننی ہے جو کڑی دھوپ کے سائے میں زمین پر بیٹھ کر صرف ایک استاد صاحب سے تعلیم حاصل کرتے ہیں! وہ بھی اُس اسکول میں جسے سرکاری اسکول کہا جاتا ہے۔ جن کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں ملک کے جیل بھی ان سے بہتر ہونگے۔ ہاں اس بار اب ان کی ہی سُننی ہے۔ یہ بے زبان معصوم اپنی آنکھوں سے ہزاروں سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے، کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم اس ملک اور صوبے میں پیدا ہوئے ہیں؟؟؟
ہم ہر روز کشمیر، برما، فلسطین، شام، افغانستان کے بچوں کا ذکر تو کرتے ہیں, وہ بھی ہمارا حق ہے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، مگر کیا ہم اپنے بچوں کا ذکر بھی کرتے ہیں؟ جو تپتی ہوئی دھوپ کے سائے تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو روز اسکول کی چھٹی کے بعد مر جاتے ہیں اور دوسرے دن زندہ ہوکر پھر واپس اسکول پہنچ جاتے ہیں۔ بچے تو پھول ہوتے ہیں اور کم بخت اس دنیا میں کون ہوگا جسے پھول پسند نہیں۔ جس طرح ہم سوشل میڈیا پے اُن ممالک میں ہونے والے بچوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ تو کیا ہمارے بچوں کا ہم پر اتنا بھی حق نہیں ہے؟
اپنی مصروف ترین زندگی میں سے کچھ پل ملیں تو اپنے گھر سے چُھٹی کے دن ہی باہر نکل کر قریبی چھوٹے شہروں کے چکر لگا کر دیکھیں کہ سرکاری اسکولوں کا کیا حشر ہے۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو آپ کو زیادہ پیسے اور وقت نکال کر لاڑکانہ نہیں جانا پڑے گا کہ آپ آثار قدیمہ کے کھنڈرات موہن جو دڑو دیکھنے جا رہے ہیں؟ ہمارا ماضی کتنا شاندار تھا اور ہم کتنے تعلیم یافتہ تھے۔ بس آپ کو صرف سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے کا ٹول پلازہ ہی پاس کرنا پڑے گا! بس اتنا سا سفر کرنے کے بعد آپکو آس پاس کے گائوں دیکھائی دیں، تو وہاں تشریف لے جائیں اپنا سمارٹ فون نکالیں اور سرکاری اسکولوں کے سامنے بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر تصویریں نکالیں۔ گھر آنے پر ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر رکھ دیں۔ اپنے اکائونٹس کا اسٹیٹس کچھ اس طرح سے رکھیں "آج سرکاری اسکول گھومنے گئے تھے"۔ بس اتنا تو کام آپ کر ہی سکتے ہیں نا!
میں جو مشورہ آپ کو دے رہا ہوں یہ کام میں گذشتہ دو سالوں سے کر رہا ہوں اور جب بھی گھر آتا ہوں تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر آنسو نکل آتے ہیں۔ وہ شہر کے سب سے مہنگے ترین اسکول میں مونٹیسری کلاس میں پڑہی ہے اور گھر میں زندگی کی ساری آسائشیں مہیا ہیں جسے جدید دور کے ٹولس کہتے ہیں۔ مجھ سے جتنا ہو سکتا ہے اتنی آواز بلند کرتا ہوں اور اپنے حصے کا کام کرتا رہتا ہوں۔ نا امید لوگ اکثر کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا! مگر مور کو ناچنا چاہیے کیونکہ نیشنل جاگرافک، اینیمل پلینٹ اور ڈسکوری چینل جیسوں کا کام ہی ہے قدرت کے چھپے رازوں کو فاش کرنا اور انسانوں تک پہچانا جس سے انسان عبرت حاصل کرے اور اپنے آپ کو سدہارے۔
اب آجاتے ہیں ان پانچ کاموں پے وہ پانچ کام سائیں سرکار کے لیئے تو اتنے مشکل نہیں تھے۔ اگر ان پانچ سالوں میں یہ کام ہوجاتے تو سائیں سرکار کو ہم “5G”کا خطاب ضرور دیتے۔ سائیں سرکار سندھ کے کسی بھی ضلعے میں پانچ مثالی پرائمری اسکول، پانچ مڈل اسکول، پانچ ہائی اسکول، پانچ کالج اور پانچ نئی یونیورسٹیاں تعمیر کرواتی جن کی بلڈنگ بین الاقوامی معیار کی ہوتی اور نظام تعلیم میں ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی جنہیں وقت کی ضرورت کہا جاتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سرکار ایک بھی ایسا مثالی کام نہیں کر پائی۔
اب آئیئے ان پانچ کاموں میں سے صرف ایک کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:
پرائمری اسکول: پیارے پاکستان کے آئین کے مطابق آرٹیکل 25-A کے تحت 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو فری اور معیاری تعلیم دینا حکومت کی ذمیداری ہے۔ سب سے بڑی نا اہلی یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اس آرٹیکل کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا! اگر رکھا ہوتا تو اس وقت ہمارے پرائمری اسکول کی حالت یہ نہ ہوتی جو میڈیا میں دکھائی دیتی ہے۔
اسکول کی بنیادی سہولیات یہ ہیں:
1.پینے کا پانی
2. واش روم
3. بجلی
4. بائونڈری وال
5. بلڈنگ کی حالت
Primary School Infrastructure rankings for province Sindh
Rank
School Infrastructure score
Availability
Building Condition Satisfactory
Electricity
Water
Toilet
Boundary Wall

4
49.85
42.06
54.68
60.94
58.65
32.9

یہ جو پانچ اہم نقاط ہیں ان کی حالت بھی کافی حد تک خراب ہے۔ ہم نے صرف پینے کا پانی لکھا ہے اور صاف پانی تو دور کی بات ہے۔ بہت سارے والدین اپنی بچیوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھیجتے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ واش روم نہیں ہیں، اب لڑکیاں کہاں جائیں؟؟؟؟۔ بجلی کا بھی برا حال ہے جو لگاتار 6 گھنٹے تک بند رہتی ہے۔ بائونڈری وال انتہائی خستہ حالت میں ہیں جس کی وجہ سے اکثر بچے بریک میں اسکول سے بھاگ جاتے ہیں۔ جس علائقے میں اسکول بلڈنگ موجود ہے وہ یا تو خستہ حالی کا شکار ہے یا لکڑیوں کی بنی ہوئی ہے اور اگر پکی سیمنٹڈ ہے تو پلستر چھت سے گرتا ہوا دکھائی دے گا۔ جن کا فرش بلکل ایسے لگے گا جیسے ننھے ننھے پہاڑ بنے ہوئے ہوں۔
میں نے پڑہنے والوں کے سامنے اپنی ایک ادنیٰ سی کاوش رکھی ہے یہ آواز اُن معصوم بے زباں بچوں کی ہے جن کو دیکھ کر لگتا ہے ان بیچاروں کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ بس ہے تو صرف اللہ ہی ہے جس کے سہارے پر یہ چل رہے ہیں باقی سرکار تو اپنے مزے لوٹنے میں مدہوش ہے اس کا کیا جائے ان کو سہارا دینے میں۔
ہاں مگر امیدیں ختم نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہر نیا دن اپنے ساتھ ایک نئی امید لاتا ہے اور امید وہی ہوتی ہے جہاں زندگی ہے۔ مایوسی کفر ہے اللہ پاک وہاں سے دروازہ کھولتا ہے جہاں کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے لہذا اچھی امید رکھیں یقینا آپکا ہر دن اچھا ہی گذرے گا۔

نوٹ: اس بلاگ کے فوٹوز Laar Education Campaign کے ٹوئیٹر اکائونٹ (educationcampgn)سے لیئے گئے ہیں۔




تبصرے