محمد عمران جونیجو
بدین آج تعلیم میں کہاں
کھڑا ہے!
جی پی ایس گل محمد ملاح 1951 میں بنایا گیا
صوبہ سندھ کی ساحلی پٹی پر بسنے والا ضلعہ بدین معدنیات سے
مالا مال ہے۔ جس میں تیل، گیس، کوئلہ کی وافر مقدار موجود ہے۔ اگر آپ کہیں کہ یہ
ضلعہ گیس اور تیل کی پیداوار میں ملک کو کندھا دیئے ہوئے ہے تو بھی یہ حقیقت ہی
ہوگی۔
اگر دوسری چیزوں مسئلاَ دودھ کی پیداوار میں صوبے میں پہلے
نمبر پر ہے، کپاس کی پیداوار میں صوبے میں چھوتے نمبر پر ہے، گنے کی پیداوار میں
صوبے میں پانچویں نمبر پر ہے، چاول کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے، ٹماٹر کی
پیداوار میں ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔
مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ الف اعلان کی رپورٹ
کے مطابق تعلیمی میدان میں بدین ملک کے 141 اضلاع میں سے 124 ویں نمبر پر جبکہ
صوبے میں 23 اضلاع میں سے
21 ویں نمبر پر ہے۔
سب سے بڑی حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ بدین پی پی پی کا
سیاسی گڑھ رہا ہے اور پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنا سیاسی
کیریئر کا آغاز اسی ضلعے سے کیا تھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی دوسری پارٹی بدین
سے بھاری اکثریت میں کامیاب ہوسکے۔ 1993 سے 2018 تک سابق ایم پی اے ذوالفقار علی
مرزا اور سابق قومی اسمبلی اسپیکر ڈاکٹر فھمیدہ مرزا لگاتار پی پی پی کے ٹکٹ سے بدین
میں جیتتے آرہے تھے۔ مگر وہ بھی تعلیم میں ایسا کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دے
سکے جسے کہا جائے کہ ہاں واقعی تعلیم کے لیئے بہت کچھ کیا گیا ہے۔
اس سے بڑی اور کیا بدحالی ہوسکتی ہے کہ بدین سے صرف 10
کلومیٹر کی دوری پر جی پی ایس گل محمد ملاح، 1951 میں بنایا گیا اور اب تک جھونپڑی
میں ہی تعمیر ہے۔ پورے ضلے میں ابھی تک 500 سے زائد جھونپڑی نما اسکول موجود ہیں۔ جبکہ
اسی اسکول سے پڑھ کر ملک کے بڑے بڑے بیوروکریٹس بڑی بڑی سیٹوں پر بیٹھے ہیں۔ ہاں
آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نہ منتخب امیدواروں نے تعلیم پر دھیاں دیا اور نہ ہی
بدین سے تعلق رکھنے والے بڑے بیوروکریٹس نے کوئی ترقی کا حصہ شامل کیا۔ وہ کہتے
ہیں نا کہ "ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا" تو بدین کے
ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔
مگر اس بار ایسا نہیں ہو رہا ہے لوگ اب آہستہ آہستہ اپنے
بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے سوچ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں بدین کو یہ
اعزاز حاصل ہے کہ سرکاری اسکولوں کی اپنی مدد آپ کے تحت بلڈنگ بنانا اور بنیادی
ضروریات کو پورا کرنے میں سماجی ورکرز آگے آرہے ہیں۔ جنہیں موجودہ این ٹی ایس پاس
اساتذہ کا بھرپور تعاون شامل ہے۔ جس میں سندھ فیس بک فیرنڈس اور کلب 300 آگے آگے
ہیں۔ سندھ فیس بک فرینڈس اپنی مدد آپ کے تحت اسکولوں میں اسٹیشنری بانٹ رہی ہے اور
کلب 300 کے ذریعے کافی سارے پرائیوٹ اور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہ میں سے ہر
مہینے 300 روپے کا چندہ جمع کروا رہے ہیں۔ جس سے اسکولوں کیلئے سولر لگانے کا بندوبست
کیا جا رہاہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں ضلعے کے وہ ایماندار لوگ شامل ہیں جن
پر لوگ آنکھ بند کر کے چندہ دے رہے ہیں اور لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کام بھی
ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
آپ کو کسی منزل تک پہنچنے کیلئے راستہ چاہیئے ہوتا ہے۔ تو
میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی کارگردگی کو بہتر بنانے کیلئے بھی ایک راستے کی ضرورت
تھی اور وہ راستہ لاڑ ایجوکیشن کیمپین نے دیا ہے۔ جس کا مثال یہ ہے کہ کیمپین اب
تک 100 سے زائد بند اسکول کھلوا چکی ہے اور یہ کام آہستہ آہستہ جاری و ساری ہے۔
بدین آج تعلیم میں کہاں کھڑا ہے اس کا اندازہ اب آپ ہی لگا
سکتے ہیں۔ مگر بدین کی عوام اس بار نو منتخب امیداروں کو اسیمبلی میں اتنی آسانی
سے بیٹھنے نہیں دے گی جیسے ماضی میں ہوا
ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں