محمد عمران جونیجو
فیس بھرنی ہے صاحب!
بچے من کے سچے، بچے جنت کے پھول ہوتے ہیں، بچے غیر سیاسی
ہوتے ہیں وغیرہ جیسے جملے آپ نے کہیں نہ کہیں لکھے ہوئے، کہے ہوئے یا سنے ہونگے۔
مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں یہ آپکے ہوں تو آنکھوں کا سکون اور دوسروں کے ہوں تو ان
کے آنکھوں کا سکون ہوتے ہیں۔ یہ بڑی بے پرواھ مخلوق ہوتی ہے کیونکہ ان پر کوئی ذمہ
داری نہیں ہوتی۔ ہاں ان بچوں پر ضرور ذمیداری ہوتی ہے جن کے کندھوں پر گھر چلانے کا
بوج ہوتا ہے اور ان سے بچگانہ ایسے روٹھ جاتا ہے جیسے کبھی سحرا سے بارش روٹھ جاتی
ہے اور پورا سحرا بارش کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ برسے تو خوشحالی نہ برسے تو خشکسالی۔
میں آج آپکو ایسے ہی ایک سحرا سے ملوانے جا رہا ہوں جس کی
باتیں آسمان تک تو ضرور پہنچتی ہوگی مگر بارش نہیں پڑتی۔ ہاں کبھی کبھار پڑتی ضرور
ہے مگر اس بیچارے کو بہت کچھ گڑگڑانا پڑتا ہے۔ میں نے اس کا نام "بڑے استاد
جی" رکھا ہے۔ یہ بڑے استاد جی میرے شہر کی ایک درزی کی دکان پر کام کرتے ہیں۔
میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو اس دن اتوار تھا اور یہ استاد
ایک بڑی سلائی مشین پر بیٹھ کر ایسے مزے سے سلائی مشین چلا رہے ہیں جیسے کپتان بڑے
سے جہاز کو چلاتا ہے۔ اپنی دھن میں مگن یہ کپڑا آیا اور گیا، پھر دوسرا اٹھایا اور
تیار کردیا۔ ایسے ننھے ہاتھوں کو میں تکتا ہی رہ گیا اور موبائل نکال کر اس کی
وڈیو بناتا رہا کہ کیسا شاندار کام کر رہا ہے۔ میں نے سمجھا یہ شاید اسی دکان کے
مالک کا بیٹا ہوگا آج اتوار ہے تو اپنے ابا کے ہاتھ بٹانے آیا ہوگا۔ مگر جب یہ
فارغ ہوا اور میں نے اس سے تعارف پوچھا تواس نے جو اپنا قصہ سنایا تو میں بلکل
ایسے ساکن ہوگیا جیسے ایک شاندار تقریب چل رہی ہو اور بجلی چلی جائے تو چاروں طرف
اندھیرا چھا جاتا ہے بلکل ویسے ہی میری حالت تھی۔
چھوٹا موں اور بڑی بات شروع ہوگئی کہ "صاحب میرے خاندان
میں کل چار افراد ہیں جن میں میری ماں، ابا، بہن اور میں آجاتا ہوں۔ ماں باپ کا
ایک بیٹا ہوں اور ایک بہن بھی ہے۔ کل ملاکر ہمارا پورا خاندان چار خدا کے بندوں پر
مشتمل ہے۔ میں پہلی کلاس میں ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھتا ہوں باقی عمر آپ خود
تعین کر سکتے ہیں اور بہن ایک سال بڑی ہیں اور وہ دوسری کلاس میں پڑھتی ہیں۔ اچھی
بھلی زندگی چل رہی تھی۔ اچانک سے ماں بیمار ہوئی اور گھر میں جو بھی کچھ تھا سارا
کا سارا ماں جی کی بیماری میں لگ گیا۔ ابا تو قرضی ہو ہی گئے مگر ماں جی نے ہمیں
بھی قرضی کردیا۔ اب جس اسکول میں،میں اور بہن پڑہتے ہیں اس کی فیس بقایہ ہوکر
ہزاروں میں پہنچی ہے۔ اسکول کی طرف سے وارننگ ملی ہے کہ فیس کی جلد از جلد ادائیگی
کریں۔ دوسری صورت میں آپکو اسکول سے نکال لیا جائے گا۔ تب سے ہم سارے محنت مزدوری
کرکے اسکول فیس جمع کروا رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی ایسی حالت نہیں ہے جہاں ہم
اپنا مستقبل سنوار سکیں" اس نے بس اتنا بتایا اور جلدی سے کپڑے اٹھاکر بنانے لگا
جیسے بول رہا ہو صاحب مجھے کام کرنے دیں کیونکہ شام کو مزدوری ملے گی۔
میں نے مزید اس سے کچھ پوچھنا چاہا مگر اس کی حالت دیکھ کر
میری ہمت نہیں ہوئی کہ اس سے مزید معلومات لوں۔ جس کے بعد میں نے اس کے دکان مالک
سے اس کا نام پتہ اور اسکول کا نام پوچھ کر اس سارے ماجرے کی تصدیق کرنا شروع کردی
اور حقیقت تک جاکر پہنچا اور حقیقت وہ ہی تھی جو اس بڑے استاد جی نے اپنی ننھی سی
زبان سے بیان کی تھی۔
میں سوچتا ہوں میرے ملک کو ایسا تو لوٹا گیا ہے جہاں پر ہم
اپنے بچوں کو سرکاری اداروں کی بدتریں صورتحال دیکھ کر سرکاری اسکول نہیں بھیجتے
اور ایسے بچے بھی ہیں جو اتنی چھوٹی سی عمر میں سرکار سے مکمل طور پر متفق نہیں۔
بس میری تو یہی التجا ہے کہ سرکار کے آسرے پر بیٹھنا وقت کا
زیان ہے ہمیں اور آپ کو مل کر ایسے بہت سارے بچوں کے لیئے آگے بڑھنا ہوگا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں