محمد عمران جونیجو
آپ تھرڈ کلاس ہو!
مجھے بچپن سے ادب سیکھنے، پڑہنے اور پڑہانے کا بڑا شوق رہا
ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کے خاندان کو صحافت ورہاست میں ملی تھی۔ نیوز پیپر
ایجنسی، پرنٹنگ پریس اور پریس کلب کے بانی خاندان میں میرا جنم ہوا۔
بچپن سے خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے اور میں نے بھی پہلا کام
یہ ہی کیا کے خواب بڑے بڑے دیکھنے شروع کیئے۔ میں خواب دیکھتا گیا اور وہ وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ الحمداللہ پورے بھی ہوتے گئے۔ آپ زندگی میں جو کچھ بننا چاہتے ہیں وہ
اگر آپ کو مل جائے تو پھر آپ کے پاس باقی کیا رہے گا جسے آپ کرنا چاہ رہے ہوں۔
بارویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد، میرا شوق تھا! یونیورسٹی
سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرس کروں اور ماں باپ کی خواہش تھی میں ڈاکٹر بنوں۔ مگر
میں تیسری کیٹیگری میں چلا گیا اور وہ تھا خاندانی کاروبار، جس میں 2000ء میں قدم
رکھے اور 2015 ء تک فرائض انجام دیئے۔ مگر میں نے اپنے خواب کو مرنے نہیں دیا، اسی
دوران میں نے بی اے، آرٹس، 2002ع میں پاس کیا اور بی اے، ماس کمیونیکیشن، 2015 ع میں پاس کیا۔ ان پندرہ سالوں میں انگریزی
زبان کا جنون، جنون ہی رہا، بالآخر میں نے 2017 ع میں ایم اے، انگلش لٹریچر، میں
کر ہی لی۔ مگر یونیورسٹی میں نہیں پڑھ سکا اور آف کیمپس سے اس خواب کو تکمیل دی۔
دو سال انگلش لٹریچر میں دیئے جانے کے بعد، امتحان دے کر فارغ
ہوئے تو من کو بڑی خوشی ملی۔ دل سے بے اختیار شکرانہ ادا کیا، "واہ میرے مولا
تیرا شکر ہے، اس خواب کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں مدد فرمائی۔ مگر جب رزلٹ آیا
تو "تھرڈ کلاس" کی مارک شیٹ ہاتھوں میں ملی۔ جب یونیورسٹی انتظامیہ سے
پوچھا کے ہمیں یہ ناانصافی کیوں ملی ہے جبکے بغیر کاپی کیئے وہ بھی انگلش لٹریچر
کے پیپر دیئے ہیں، کیمپس کا ریکارڈ توڑا ہے جس کے عینی شاہدین کیمپس انتظامیہ اور
اساتذائے کرام ہیں۔ تو جواب یہی ملا کہ بھیا! فرسٹ کلاس ملنا یہاں کا دستور نہیں
اور سیکنڈ کلاس اس لیئے نہیں ملتی کہ کیمپس بلیک لسٹ ہے۔ باقی شکر کرو تمہیں تھرڈ
کلاس ملی ہے ورنہ فیل کر دیتے تو پھر تم کیا کرتے؟
میں نے جیسے ہی فیل کا آواز سنا، تو میرے خواب سے آواز آئی
"عمران اب وقت نہیں، اور زیادہ بولو گے تو خواب صرف، خواب ہی رہ جائے گا۔
چھوڑو گریڈ کو بس خوشی منائو کہ تم تھرڈ گریڈ میں پاس ہوئے ہو" پھر میں نے
بھی خواب کی بات رکھ لی اور سب کچھ دبا دیا بلکل ویسے ہی جیسے اس ملک میں انصاف نہ
ملنے والے کو دبا دیا جاتا ہے۔
اب مجھے آگے ایم فل اور اسکے بعد پی ایچ ڈی کرنی ہے۔ کیونکہ
اب میرے پاس تھوڑا سا وقت بھی ہے اور مالی حالات بھی بھتر ہیں کہ میں اس خواب کو
اپ گریڈ کر سکوں۔ کیونکہ میرا خواب تو صرف ماسٹر تک تھا۔ اب اس دنیا میں ہر کوئی
یہی چاہتا ہہ کہ میں ترقی کروں۔ مگر جب ایک یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو جواب ملا
"بیٹا! ہم ایم فل میں صرف فرسٹ کلاس والوں کو ہی داخلا دیتے ہیں" پھر اُسی
یونیورسٹی سے رابطہ کیا جہاں سے ماسٹرس کی تھی۔ تو وہاں سے یہ جواب ملا
"سیکنڈ کلاس ہونا لازمی ہے"۔ پھر کسی پرائیوٹ ادارے میں لیکچرر کے لیئے
اپلائی کیا تو انھوں نے کہا "تھرڈ کلاس میں پاس ہونے والوں کو نہیں رکھ سکتے"۔
اب میں سوچتا ہوں کہ اگر تھرڈ کلاس کی اتنی ہی بے عزتی ہوتی
ہے، تو پھر یونیورسٹی نے مجھے تھرڈ کلاس کیوں دیا اور میرے ساتھ جو 24 امیدوار اور
بھی تھرڈ میں ہیں، وہ کیا کریں گے؟ ایم پی اے کی سیٹ ہو یا ایم این اے کی الیکشن
لڑو، تو بھلے میٹرک پاس بھی نہ ہو، بھلے آپ پہ سپریم کورٹ حملے سے لے کر قتل کے
مقدمات چل رہے ہوں، آپ ٹیکس چور ہوں وغیرہ وغیرہ تو آپ اس ملک کے صدر بھی بن سکتے۔
اگر آپ تھرڈ ڈویژن ہیں تو آپ پی ایچ ڈی نہیں کر سکتے ؟؟؟
ہایر ایجوکیشن کمیشن سے لے کر یونیورسٹیاں اور سینیٹر و
وزرا صاحبان کو اس پر غور کرنا ہوگا کہ اس نمبر گیم سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں۔
کیونکہ تعلیم ہی کسی ملک کو ملک بنا سکتی ہے باقی جنگل میں کچھ بھی چل سکتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں