محمد عمران جونیجو
ایک تصویر، ایک اسکول اور ایک استاد
جی پی ایس ارجن کولھی کے بچے اسکول کے سامنے تقریب میں موجود ہیں۔ |
انسان لفظ کی معنی میری نظر میں "ایک دوسرے کی خدمت کرنا" ہے۔ انسان، انسان شاید بنتا ہی اسی وقت ہے جب وہ کسی کی مدد کرے اور اُسے خوشی ملے تو پھر جینے کا مقصد بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
معاشرے میں ہونے والی روز بروز زیادتیاں دیکھ کر دل چاہتا
ہے کہ ہم بھی کسی نہ کسی کی مدد کریں مگر پھر ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ
"میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں"۔ جی ہاں اگر آپ بھی کسی کی مدد کرنا چاہتے
ہیں تو میں آج آپ کو اپنی ایک سچی کہانی سناتا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد میں یقین سے
کہہ سکتا ہوں کہ آپ آج سے یہ کہنا پسند نہیں کریں گے کہ "میں اکیلا کیا کر
سکتا ہوں"۔
دسمبر 2016 کا دن تھا میں آفس میں کام ختم کرکے اپناFb اکائونٹ دیکھ
رہا تھا تو ایک تصویر پر میری نظریں رک گئیں جس کا عنوان تھا "ارجن کولھی
اسکول کے بچے ننگے پاؤں اسمبلی کرتے ہوئے"۔ دسمبر اور جون کے مہینے بچوں کے
پسندیدہ ہوتے ہیں اور ان میں چھٹیاں ہوتی ہیں کیونکہ ٹھنڈ اور گرمی بھی بہت زیادہ
ہوتی ہے۔
مگر دسمبر کے مہینے میں اس تصویر نے میرے ہوش اڑا دیئے اور
میری رگیں گرم کردیں۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سندھ میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی
حالت زار کتنی بدترین ہے مگر اتنی بدترین ہے اسُ کا اندازہ مجھے تب ہوا۔
جیسے ہی گھر واپس آیا تو اپنے بچوں کو برانڈیڈ جوتے دیکھ کرآنکھوں
میں آنسو آگئے۔ بیگم جو کہ خود بھی استانی ہیں نے اپنا موبائل دکھاتے ہوئے یہ
تصویر دکھائی اور مجھ پر زور دیا کہ ہم دونوں مل کر ان بچوں کی مدد کریں اور میں
معلوم کروں کہ یہ اسکول بدین میں کس جگہ پر ہے۔
میں نے وائرل اس فوٹو پہ کمینٹس دیئے کہ مجھے اس اسکول کے
بارے میں بتایا جائے کہ یہ بدین میں کس تعلقہ اور یوسی میں ہے تو ایک ہفتے تک کسی
نے بھی کوئی معلومات نہیں دی۔ ایک ہفتہ گذرنے کے بعد اُس اسکول کے استاد نے مجھے
اپنا نمبر اور اسکول کا ایڈریس ان باکس کیا۔
میں نے انہیں کال کی جس کی تفصیل اس طرح ملی۔ "سائیں
میرا نام منو نجار ہے، اسکول کا نام "گورنمنٹ پرائمری اسکول ارجن کولھی"
ہے اور ہیڈ ماسٹر ہیمن داس ہیں۔ ہمارے ہاں 100 سے زائد بچے کسانوں اور مزدوروں کے
پڑھتے ہیں، جن کے پاس کھانے کو مشکل ہے تب بھی یہ میرے کہنے پر اپنے بچے اسکول
پڑھنے بھیجتے ہیں۔ اب جو بھی حال ہے اُسی حالت میں یہ اسکول آتے ہیں۔ میں روزانہ
اسمبلی کرواتا ہوں اور یہ دل لگا کر پڑھتے ہیں۔ بچوں کے پاس جوتے نہیں تو یہ ننگے
پاؤں پھٹے پرانے کپڑوں میں اسکول آجاتے ہیں۔ اگر آپ ہماری کچھ مدد فرمائیں تو بہت
بڑی مہربانی ہوگی۔ میں نے پوچھا آپ کو کوئی مدد ملی ہے؟ انھوں نے کہا نہیں صرف لوگ
سوشل میڈیا پر ہمدردیاں دکھا رہے ہیں۔
میں نے منو سے بچوں کی تفصیل لی اور ہول سیل ریٹ پر جوتے
خریدے اور اسٹشنری میں پینسل، شاپنر، پین، ربڑ، اسکول بیگ، پاؤچ کے علاوہ دوپٹے
اور سوئیٹر میری ساس وہ بھی ایک پرائیوٹ اسکول میں وائیس پرنسپل ہیں نے لے کر
دیئے۔ اس سارے سامان کو میں نے اپنی کار میں دو دوستوں کے بیٹھنے کی جگہ چھوڑ کر ٹھونس
دیئے اور ساتھ میں اپنے دوست جمن شاہ اور ندیم آرائیں کو ساتھ لے کر اسکول ارجن
کھولی روانہ ہوئے۔
ہم نے 55 کلو میٹر سفر کا آغاز کیا جب نیشنل ہائی وے ختم
ہوا تو اسکول جانے والا راستہ بہت ہی خستہ حالت میں تھا۔ ہم جس راستے سے جا رہے
تھے اس راستے سے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی
آچکے ہیں۔ مگر آپ یقین کریں کار کی رفتار 30 سے اوپر نہیں جاسکتی تھی۔ مجھے راستے
میں شرارت کرنے کو ملتی تو میں گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دیتا اور پچھلی سیٹ پہ بیٹھے
جمن کے اوپر جوتے آکر گرتے اور ہم لطف اندوز ہوتے ہوئے اسکول سے 1 کلومیٹر قریب
پہنچے، جہاں پر خاصخیلی آئل فیلڈ موجود ہے جو کہ بدین کی سب سے بڑی آئل فیلڈ ہے
مگر گاؤں والوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔
ہم اسکول کے سامنے پہنچے تو بچے، اساتذہ اور گاؤں والوں نے
ہمارا خوب استقبال کیا۔ کافی سارے بچے انگریزی میں Welcome Sir کہہ رہے تھے۔ میں نے بڑھ کر بچوں سے ہاتھ ملایا۔ اسکول کی جھونپڑی
کو دیکھا جو کہ دو حصوں میں بانٹی گئی تھی بلکل ایسے جیسے دو کلاس روم بنائے گئے
ہوں۔ ہمیں منو اور ہیمن صاحب نے اسکول وزٹ کرایا اور پھر ایک چھوٹی سی تقریب مقرر
کی۔ جس کی میزبانی منو نے کی سارے بچے اسکول بینچوں پر آکر بیٹھ گئے اور ہم ان کے
سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تقریب کی شروعات کلام پاک سے ہوئی جس کے بعد مختلف بچوں
نے حیران کن پرفارمنس دی جس میں گیت، ٹیبلو، تقریریں شامل تھی اور ہمیں توقعہ نہیں
تھی کہ یہ بچے اتنے ذہیں بھی ہیں!!!
اس چھوٹی سی تقریب کے بعد مجھے اسٹیج پہ بلایا گیا۔ میں نے
ان بچوں کو خوب داد دی اور اسکول ٹیچر منو نجار کو بہت سراہا جس نے اس کام کی
شروعات اس تصویر سے کی تھی۔ ھیڈ ماسٹر ھیمن داس کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے
فراخ دلی سے نئے استاد کی حوصلہ افزائی کی ورنہ زیادہ تو ایسا ہوتا ہے کہ مینیجمنٹ
نہیں چاہتی کی ہم سے نیچے والے آگے نکلیں۔
میری تقریر ختم ہونے کے بعد بچوں کی مسکراہٹیں بڑھ گئیں وہ
اس لیئے نہیں کہ میری تقریر ختم ہوئی بلکہ وہ اس لیئے کہ یہ آخری مرحلہ تھا جس میں
انہیں سامان ملنے والا تھا۔
منو نے اعلان کیا "پیارے بچوآپ میں سے باری باری جس کو
بلایا جائے وہ اسٹیج پر آئے اور اپنا سامان وصول کرے"۔ ہم نے سب سے پہلےبچوں
میں اسٹیشنری آئیٹم بانٹے اور آخر میں جوتے بانٹنے کی باری آئی۔ جوتے بانٹتے وقت میں تو دنگ رہ گیا کیونکہ ہیڈ ماسٹر اور
اسکول ٹیچر ہر ایک بچے کو بلا کر اس کی سائز سے جوتا پہنا رہے تھے۔ پانچویں اور
چوتھی کلاس کے بچے بھی چھوٹی کلاس کے بچوں کو ان کی سائز ڈہونڈنے میں مدد فراہم کر
رہے تھے۔ اگر کسی بچے کو سائیز چھوٹی ہو رہی تھی تو وہ اپنی زبان میں بول رہے تھے
"نونو شے نا موٹو شے" یعنی چھوٹا ہے نہیں بڑا ہے۔
مجھے جو خوشی اس دن ملی تھی وہ میری ان تمام خوشیوں کی لسٹ
میں شامل ہوچکی تھی جو مجھے اب تک زندگی کی بڑی خوشیوں میں نصیب ہوئی ہیں۔
ہم واپس لوٹنے والے تھے میں نے منو کو ایک روپے کا سکا بطور
مذاق کے انعام دیا اور کہا کے اسے سنبھال کر رکھنا یہ ایک دن بڑا ہوگا۔ منو نے
جاتے جاتے ہوئے کہا سائیں اسکول میں پینے کے پانی کا مسئلا ہے اگر وہ آپ حل
کروادیں تو اللہ آپ کو بہت خوش رکھے گا۔
میں نے گھر واپس آکر اپنے بچوں کو گلے لگایا اور بیگم سے
کہا کے ہم آج ایک ایسا درخت لگا کر آئے ہیں جس کا پھل آنے والی نسلیں کہائیں گی۔
میں نے اپنے چچا ڈاکٹر مولا بخش وہ بھی ایک سماجی ورکر ہیں
کو اس اسکول میں ہینڈ پمپ لگوانے کا کہا کیونکہ وہ ان دنوں تھر میں ایک تنظیم "سندھ
فیس بک فرینڈس" کے تحت ہینڈ پمپس لگوا رہے تھے، انھوں نے فورا ہامی بھری اور
فروری 2017 میں ہینڈ پمپ بھی لگ گیا۔
اب باری تھی اسکول بلڈنگ کی سب سے پہلے منو نے بھاگ دوڑ
سرکار کے پیچھے لگا دی مگر ہر افسر سے ہامیاں ہی ملیں۔ پھر منو نے ایک بار پھر سے
ان ہی دوستوں کو بلڈنگ بنوانے میں اپیل کی اور دیکھتے ہی دیکتھے 3 لاکھ سے زیادہ
کی رقم جمع ہوئی۔ دو کمروں پر سرکاری اسکول فیس بک فرینڈس کی مدد سے بن گیا۔ اور
یہ شاید سندھ کا پہلا اسکول ہے جو کہ پوری سندھ سے ملنے والے چندے سے بنا ہے۔ اس
وقت شاگردوں کی تعداد 250 سے زائد ہونے والی ہے۔
منو نجار اسکول ماسٹر نئی اسکول بلڈنگ کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے۔ |
مجھے آج اس بات کی خوشی ہے کہ ہم نے چار سال پہلے جو بیج لگایا تھا وہ آج ایک پودا بن گیا ہے اور آنے والے وقتوں میں یہ ایک گھنا درخت بنے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں