محمد عمران جونیجو
ماسی بجلی ہے!
انسان کی زندگی کا اصل مقصد جو کہ میری سمجھ میں یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کیلئے آسانی پیدا کرے اگر انسان یہ کام نہیں کر سکتا تو آپ اسے انسان نہیں بلکہ شیطان کہہ سکتے ہیں جس کا ہر وقت یہ ہی کام ہے کہ مشکلات کیسے پیدا کی جائیں۔
اس دور میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا ہر کونا کسی نہ
کسی نعمت سے مالا مال ہے مگر ہم نے ان ساری نعمتوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔
ہماری حکومتوں سے گذشته ستر برسوں میں بنیادی ضرورتیں ہی
پوری نہیں ہوتی تو ترقی کی راہ پر گامزن ہونا تو پته نہیں آنے والی کتنی نسلوں کے
بعد ملے گا۔
ملک کا پہیه چلانے کیلئے اور ہمیں زندہ رکھنے کیلئے توانانی
ایک ایسی نعمت ہے جو کہ ڈہونڈنے سے نہیں ملتی۔ مجھے تو عابدہ پروین کا یہ کلام بہت
خوب لگتا ہے کہ "ڈہونڈو گے ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں، تاریخ ہے
اپنی حسرت و غم ۔۔۔۔" یہ غزل اگر آپ سنیں گے تو آپکو توانائی چاہیئے اور ہم
آپکو بدین سے ملواتے ہیں جہاں توانائی ڈہونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
چلو جناب اترو آخری اسٹیشن آگیا!!! آخری اسٹیشن!!!! آخری
اسٹیشن!!! میری جیسے ہی آنکھ کھلی تو کانوں پر یہ ہی آواز آئی "آخری
اسٹیشن" میں سمجھ گیا بدین آگیا۔ میں نے شرارت میں پاس بیٹھے کسی بزرگ سے
پوچھا "چچا اس سے آگے ٹرین نہیں جائے گی" کہنے لگے "نہیں بیٹا یہ
ملک کا آخری اسٹیشن ہے" میں نے پھر سے شرارت میں پوچھا "پھر اس سے آگے
کیا ہے" پہلے تو غور سے دیکھنے لگے پھر ہنس کر کہا "اس سے آگے سمندر ہے
ہاں اگر ڈوب مرنا چاہتے ہو تو چلے جاؤ" میں نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا
"چاچا وہاں کیوں جاکر ڈوب مروں اس شہر میں واپڈا یہ کام گذشتہ کئی سالوں سے
کر رہی ہے بلکہ اُس دن سے جب سے اس شہر کے چراغ بجھ کر بلبوں اور ٹیوب لائیٹوں میں
تبدیل ہوگئے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں نمی سی چھا گئی اور اتنا
کہہ کر ٹرین سے ساتھ اترنے لگے کہ "بیٹا تم بھی وہی غلطی کر رہے ہو جو کہ ہم
نے کی اور وہ ہے کسی کے آسرے پر بیٹھنا کہ فلاں ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی اور
بڑا آدمی جو آکر تمہاری مدد کرے گا۔ یہ ممکن نہیں کیوں کہ جو بھی آئے ہیں انہوں نے
اپنے پیٹ کیلئے سوچا ہے اور تم نے اپنے پیٹ کو صرف کھوکلھے نعروں سے بھرا ہے اٹھو
اور اپنی مدد آپ کرو اور ان کے دروں پر جانا چھوڑ دو"۔
میں ان بزرگ کو خیرباد کہہ کر اسٹیشن سے گھر کی طرف نکلا
اور ایک نظر اسٹیشن پر ڈالی تو وہاں لکھا ہوا تھا 1920 میں تعمیر شدہ بدین ریلوی
اسٹیشن، دل میں سوال اٹھا یار! کیا خوب ماضی تھا 1920 میں بننے والی بدین ریلوی
اسٹیشن اب بھی پورے شہر سے تعمیر میں اوپر ہے اور اب بننے والی عمارتیں اور ان میں
استعمال شدہ مٹیریل کا کیا حال ہے کہ یہ اسٹیشن 100 سال گذرنے کے بعد بھی جوان ہے
اور نئی بننے والی عمارتیں 10 سالوں میں بوسیدہ ہوجاتی ہیں۔
میں ٹھنڈی آہیں بھر کر گاڑی میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف
روانه ہوگیا۔ گھر کی گلی پر پہنچتے جو پہلی آواز میری کانوں پر پڑی وہ تھی
"ماسی بجلی ہے" جیسے ہی یہ آواز میں نے سنی تو مجھے لگا میرے جسم سے
اینرجی ختم ہوگئی ہے اور میں فوراَ کسی گنجان آبادی میں پہنچ گیا ہوں جہاں بنیادی
سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں۔ گھر پہنچ کر پته چلا کہ گذشته 20 دنوں سے بجلی غائب
ہے جن کے پاس سولر ہے وہ سولر پر اپنا کام چلا رہے ہیں اور جن کے پاس جینریٹر تھے
تو وہ چل رہے ہیں اور جب میں نے جینریٹروں کی آوازیں سنیں تو بلکل ایسا لگا جیسے
قربانی کے دن بکروں کی آوازیں ہوتی ہیں ہاں۔ اگر یہ جینریٹرز بول پڑیں تو سب سے
پہلے یہ ہی کہیں گے کہ ہم نے بدین والوں کا کیا بگاڑا ہے جو کہ ہمیں روزانہ 16
گھنٹے چلاتے ہیں ہم پر رحم کریں مگر ان کے مالکاں بہی بے رحم ہوگئے ہیں۔
تھوڑی دیر کیلئے آپ جہاں پر ہیں وہاں پر بیٹھ کر سوچیں کہ
کیا آپ لگاتار دو ہفتوں تک بغیر بجلی کے چل سکتے ہیں؟ ان دو ہفتوں کے درمیاں جن کے
پاس نہ سولر ہے نہ یو پی ایس اور نہ ہی جینریٹر ذرا ان پر کیا گذری ہوگی؟ میں اسی
سوچ میں اپنے ماضی میں چلا گیا اور وہاں دیکھا کہ جب میں نے پرائمری مکمل کیا تو
بجلی کا میٹر گھر کے اندر لگا ہوتا تھا، جب میٹرک پاس کیا تو بجلی کا میٹر گھر کے
دروازے پر لگ گیا پھر انٹرمیڈیئیٹ کیا تو میٹر نے پھر سے ہلنے کی تیاری شروع کردی
اور میں سمجھ گیا کہ یہ بیچارہ اب یہاں پر بھی نہیں رہنا چاہتا اور جب گریجوئیشن
کی تو میٹر گھر کی گلی میں نسب ہوگیا اب میری ماسٹرس کرنے کی باری تھی اور میٹر
بھی تیاری کرنے لگا خیر سے ماسٹرس بھی ہو گئ اور میٹر جاکر گھر جانے والی مین گلی
میں جاکر نسب ہوگیا اور اب مجھے بتایا گیا ہے کہ میٹر روڈ پر ٹرانسفارمرز کے
کہمبوں میں لگ رہے ہیں اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں ایم فل کروں تو میٹر کو
کہاں پہنچادوں اور پی ایچ ڈی کروں تو ہوسکتا ہے میٹر ہی غائب ہوجائے۔ اسلیئے میں
نے بہی زیادہ پڑہنے سے انکار کر دیا ہے اور سوچ رہا ہوں جس ادارے سے گذشتہ 70
برسوں میں اپنا میٹر نہیں سنبھالا جاتا وہ کیا خاک ہمیں بجلی فراہم کرے گا۔
میں اتنی گہری سوچ میں تھا کہ اچانک گھر کے دروازے پر زور
سے دستک ہوئی اور میری سوچوں کے سارے فیوز اٹر گئے بلکل ایسے جیسے ٹرانسفارمر کے
اڑ جاتے ہیں۔ میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو اپنے دوست گھمن کو پایا میں باہر آکر
اسے ملا اور کہا "بھیا کوئی تمیز ہوتی ہے دروازہ کھٹکھٹانے کی بھلا کوئی آگ لگ
گئی ہے کیا جو اتنی زور سے کھٹکٹھا رہے
تھے" غصے سے کہنے لگے "ہاں آگ لگ گئی ہے" میں نے پریشان ہوکر کہا "کہاں"!
تو کہنے لگے "دل میں" میں نے کہا "اوہے اوہے تو پھر کسی سے بدلہ
لینا ہے" کہا "ہاں" میں نے کہا "کس سے" کہنے لگے "واپڈا
سے" میں نے جیسے ہی واپڈا کا نام سنا تو میرا بھی غصہ بڑھ گیا کہ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نے تو جینا حرام کر دیا ہے"۔
میں نے پوچھا "تم نے کیا سوچا ہے بدلا لینے کیلئے"
تو کہنے لگے "یار شادی کو دس سال ہوگئے ہیں اس بار کچھ پیسے بچاکر رکھے تھے
تو سوچا کہ پہلی مرتبہ بیگم کو کوئی سونے کی چیز شادی کی سالگرہ پر تحفہ کروں گا
مگر وہ پیسے لے کر آیا ہوں اور میرے ساتھ اپنے دوست ارسلان کی دکان پر چل مجھے دو
پلیٹوں والا سولر سسٹم خریدنا ہے اور کہنے لگا کہ بجلی گذشتہ دو ہفتوں سے نہیں ہے
اور مزید پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا واپڈا آفیس بدین کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں
کوئی سننے والا نہیں ہے اور مجھے پتہ ہے تم ابھی ابھی باہر سے آئے ہو اور بہت تھکے
ہوئے ہو مگر میری سخت مجبوری ہے"۔
میں نے کہا "یار یہ تمہاری نہیں ہم سب کی مجبوری ہے ہم
ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں پر آپکو ساری نعمتیں ملیں گے پر انصاف نہیں ملے گا"۔
میں اپنے دوست کے ہمراھ جیسے ہی گلی سے مڑ کر روڈ پر آیا تو واپڈا ملازمین میٹر
روڈ کے ٹرانسفارمرز والے کہمبے پر لگا رہے تھے اور میں نے قطار میں لگنے والے
میٹروں کو ایسے دیکھا جیسے کوئی فلسطینی، اسرائیلی فوج کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور
اس وقت غصہ آیا کہ فلسطینیوں کی طرح پتھر اٹھائوں اور بجلی کے میٹروں کو مارنا
شروع کردوں۔
راستے میں دوست کو کہنے لگا کہ آپ کے پاس جو میٹر لگا ہوا
ہے کیا وہ بھی روڈ پر لگے گا تو وہ بیچارہ پہلے سے غصے میں تھا تو کہنے لگا "اب
یہ واپڈ کا کام ہے روڈ پر لگائے یا جھنم میں جاکر لگائے میرا اب واسطہ نہیں"۔
میں حیران و پریشان ہوگیا کہ یہ ایک ایماندار آدمی جو ہمیشہ باقاعدگی سے ہر ماہ
بجلی کا بل وقت پر ادا کرتا ہے اور جس کے سامنے کنڈے کی بجلی حرام ہے اور اب اس کو
کیا ہوگیا ہے کہ ایسی باتیں کر رہا ہے۔ میری اس گہری سوچ کو دیکھ کر کہنے لگا "پریشان
نہ ہو میں نے بھی وہی بندوبست کر دیا ہے جو کہ دوسرے کر رہے ہیں یعنی اپنے ٹیڑے
استاد کو 500 روپے مہینے پر کنڈا سسٹم لگوادیا ہے اب سولر لگوالیتے ہیں باقی کام
استاد ٹیڑے کا ہے کہ ہمیں بجلی ملے گی اور اب وہ کیسے بندوبست کرتا ہے یہ اس کا
کام ہے"۔
اس شہر میں بہت سارے ایماندار لوگ آپ کو ملیں گے جو کہ نہیں
چاہتے کہ وہ بجلی کنڈے پر چلائیں مگر واپڈا ملازمین جو کہ نیچے سے اوپر تک آپ کو
اتنا ذلیل کریں گے کہ آپ خودبخود راضی ہوجائیں گے کہ جناب مجھے بھی کنڈا لگوانا
ہے۔
میں بھی ابھی سوچ رہا ہوں کہ کل واپڈا آفس جاکر ایک درخواست
دوں کہ جناب اعلی مجھے رجسٹرڈ کنڈا لگوانا ہے کم از کم بجلی تو کہیں نہ کہیں سے ضرور
ملے گی۔
G mujy bi kunda lgwana hy Sir Imran
جواب دیںحذف کریں