بیٹا سولر ہے!؟
اللہ سائیں کا بڑا کرم ہے کہ میری شادی 2011 میں ہوگئی تھی
ورنہ میرے کچھ کلاس فیلو ابھی تک کنوارے چل رہے ہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو "اپلائیڈ
فار رجسٹریشن" بھی نہیں ہوئے یعنی ابھی تک ان صاحبوں کی منگی بھی نہیں ہوئی۔
اب یہ راز کیا ہے وہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور وہ صاحبان جانتے ہیں جو ابھی تک
اکیلے گھوم پھر رہے ہیں یا آزاد چل رہے ہیں۔
اور جن بیچاروں کی شادیاں اس سال کے بیچ میں ہونی تہیں یا
آخر میں وہ تو بہت برے حال میں ہیں کیونکہ کرونا نے ساری دنیا کو صاف کر دیا ہے جس
نے کرونا سے خوب مال کمایا ہے وہ تو کرونا کو دعائیں دیتے ہیں کہ یہ مزید دس سالوں
تک اپنے پنجے جمائے رکھے اور جن کا کرونا کی وجہ سے بہت سارا نقصان ہوا ہے ان کے
سامنے تو یہ بہت بڑی آفت ہے اور کنواروں کے سامنے تو یہ ایسا ہے جیسے اس وقت ہمارے
ملک میں واپڈا کا حال ہے شاید ئی کوئی خوشنصیب ہوگا جو واپڈا کو بہت اچھے لفظوں
میں یاد کرتا ہو، ورنہ 99.99 فیصد جو روزانہ کے بنیاد پر تعریفیں کرتے ہیں وہ آپ
اور ہم سے ڈہکی چھپی نہیں ہیں۔
پہلے زمانے میں لوگ رشتہ لینے کے لیئے جاتے تھے تو لڑکی
والے لڑکے کا سب سے پہلے شریف بندا ہونا لازمی سوال ہوتا تھا اور اسکے بعد روزگار
کا پوچھا جاتا تھا۔ اسکے بعد جو زمانہ آیا تو اس میں زیادہ اہمیت پیسے کو ہونے لگی
کے لڑکے کے پاس اچھا خاصا مال ہونا چاہیئے پھر وہ حلال کا ہو یا حرام کا ہو یہ
اکثر کوئی نہیں پوچھتا تھا، بس مال اور ٹھاٹھ باٹھ ہونے چاہیئیں۔ اور اب یہ زمانہ
ہے جس میں ہم چل رہے ہیں۔ اب سوال اتنے ہو گئے ہیں کہ سوالوں کی اہمیت ہی کم ہونے
لگی ہے کیونکہ ہمیں روز بروز حکومت سے ملنے والی مایوسیاں ہی اتنی مل رہی ہیں کہ
سوال کرنے کی اہمیت نہیں رہی۔ بس ہو رہا ہے، کیوں، کیسے، کون، کہاں والے سوالوں کی
اہمیت نہیں رہی کیونکہ سننے والوں نے اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگا رکھے ہیں اور وہ
زمانے سے بے خبر مست ہوکر مستی میں ڈوبے ہیں۔ جب ہوش آئے گا تو اس دن ان کی جنازے
نماز پڑہی جارہی ہوگی اور پھر اس دن آپ جانتے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہونگے کہ "کاش
میں کانوں سے ہیڈ فون اتار کر اپنی بڑی کرسی پر بیٹھ کر سوالوں کے جواب دیتا تو آج
یہ دن نہ دیکھنا پڑتے پھر اسکے بعد کیا ہوگا، یہ بندا جانے اور اسکا مالک جانے۔ ہم
بس یہ جانیں کے بس، کچھ نہ جانیں!
ہاں تو میں شادی کرنے اور شادی کروانے میں گھم تھا اور کہاں
سے کہاں نکل گیا۔ واپس آتے ہیں جناب! واپسی آتے ہی میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے،
مگر میں آپکو پوری گارنٹی سے کہتا ہوں کہ صرف ایک سوال ہی آیا ہے۔ ہاں اگر یہ
گارنٹی واپڈا والی نکلی جس میں کمپلین سینٹر پر بیٹھے ملازم کہتے ہیں جناب بجلی
اوپر سے گئی ہے، اور اوپر والے کہہ رہے ہیں، اوپر سے فالٹ ہے، جب یہ فالٹ اوپر سے
نکلے گا، تب جاکر آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اوپر سے بجلی کب آئے گی۔ ہاں اگر ایسی
گارنٹی ہے تو پھر میں ذمیوار نہیں ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جن بیچاروں کی شادیاں 2020
میں نہیں ہوئی ہیں یا 2021 میں ہونے والی ہیں ان سے اب بننے والا سسرال جو پہلا
سوال کرے گے وہ یہ ہے کہ "بیٹا آپکے گھر میں سولر ہے"۔
اگر بیٹے کے گھر میں سولر نکلا تو بیٹا بہت خوشنصیب ہے ورنہ
سمجہیں رشتے میں گڑ بڑ ہوگئی۔ کیونکہ جینریٹر کا زمانہ بھی جا رہا ہے ایک شور بہت کرتا
ہے اور اب گیس والوں نے بھی اپنے بھائی واپڈا والے کام کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ہاں
تو جو بھی دوست شادی کے خواہشمند ہیں وہ میرے اس سوال پر غور، شور اور مور کرنا
شروع کردیں۔ کیا خبر آپ کے ساتھ کیا حشر ہونے والا ہے۔ کیونکہ سسرالیوں کو یہ
بخوبی اندازہ ہے کہ ملک میں ہاتھ ٹھوکی بے روزگاری ہے لڑکا کہیں نہ کہیں سے تو
ہاتھ پائوں مار لے گا، نہیں تو مکے اور لاتیں تو ضرور ہی مارے گا۔ مگر مارا بجلی
کہاں سے لائے گا؟ اگر اسکے پاس سولر نہیں ہے تو؟؟؟!
میں اگر فلم ڈائریکٹر ہوتا تو کسی فلم میں، میں یہ سین ضرور
بناتا جس میں ہیرو، ہیروئن کے پاس بڑے پیار سے آتا اور کہتا ہے "جانیمن کیوں
اداس ہوحکم کرو میں تمہارے لیئے آسمان سے تارے توڑ کر لائوں" اسکے بعد
ہیروئن، ہیرو کو بڑے غصے سی دیکھتی اور آگ بگولہ ہوکر کہتی "آسمان سے تارے تو
تمہارے ابا سے بہی نہیں اتریں گے تم جاکرایک سولر سسٹم گھر میں لگوادو بس یہ ہی
کافی ہے" اور اگر میں ہولی ووڈ ڈائریکٹر ہوتا تو ایک فلم بناتا جس میں واپڈا
نے بہت بڑا کمال کیا ہوتا ہے اور ناسا سے چیلینج کرتے ہیں کہ آپ نے چاند پر جاکر
دکھایا اور ہم سورج پر جاکر دکھائیں گے کیوں ساری قوم سورج کے پیچھے لگ گئی ہے اور
ہم وہاں جاکر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سورج کی تپش میں آخر ایسا کیا ہے کہ سولر پلیٹیں
اتنا گرم ہونے کے بعد بھی جلتی نہیں ہیں اور اسکی جگہ بیٹری کیسے چارج ہوتی ہے اور
بجلی کے آلے کیسے چلتے ہیں۔
اس لیئے میری ان تمام دوستوں سے التماس ہے کہ شادی کرنے سے پہلے اور شادی کرنے کے بعد سولر لگوانے کا سوچیں ورنہ پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ ہاں اگر اب بھی آپ یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ واپڈا کو اللہ ہدایت دے تو ہدایت بھی ان کو ملتی ہے جو ہدایت مانگتے ہیں اور جن کی نیتیں لوگوں کو آرام اور سکھ پہنچانا ہوتی ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں