بارہ ربیع الاول آمد نبی آخرزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ

 

بارہ ربیع الاول آمد نبی آخرزمان حضرت محمد مصطفیﷺ

اللہ رب العزت نے اپنی تخلیقات میں سے جو قیمتی تخلیق بنائی ہیں اس میں سے سب سے اعلیٰ، شاندار، قیمتی اور بڑی عزت والی تخلیق جناب حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے۔آپ ﷺ کی شان، میں ایک ناچیز کیا بیان کرسکتا ہوں۔ آپ ﷺ کی سیرت و صورت دیکھنی ہو تو آپ حضرات قرآن کا مطالعہ غور و فکر سے کریں۔ میں یہاں پر غور و فکر پر اس لیئے زور دے رہا ہوں کہ ہم قرآن تو پڑھتے ہیں مگر اس میں غور و فکر نہیں کرتے۔ ہاں اگر غور و فکر کر رہے ہوتے تو اس وقت مسلمانوں کی یہ پست حالت نہ ہوتی اور جس دن سے مسلمان نے قرآن میں غور و فکر کرنا شروع کر دیا اس دن مسلمان پستی سے نکلے گا اور غیر مسلم بھی مسلمان سے گھبرائے گا نہیں بھلے وہ اقلیت میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اسلام سلامتی اور انصاف کا درس دیتا ہے اور جہاں انصاف ہو وہاں لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔

میری ننھی سی تحقیق کے مطابق جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے شان کو بیان کیا ہے وہاں پر اپنے محبوب ﷺ کو ضرور ساتھ رکھا ہے۔ میں سب سے پہلے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن کی پہلی سورہ فاتحہ کا پہلا لفظ "الحمد" سے شروع ہوتا ہے اور بات اس جگہ سے شروع بھی ہوتی ہے اور ختم بھی ہوتی ہے وہ کہتے ہیں نہ کہ سمجھدار کے لیئے اشارہ ہی کافی ہے۔ الحمد لفظ کے شروع میں (ا) الف اسکے بعد (ل) لام آتا ہے جو کہ اللہ کے نام کے شروعاتی دو حروف تہجی ہیں ان کے بعد ح، (م) میم اور (د) دال آتے ہیں جو کہ محمد لفظ کے آخری تین حروف تہجی ہیں۔ اب آپ ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قرآن شروع ہونے کا پہلا لفظ ہی اللہ سائیں نے اپنے پیارے محبوب ﷺ سے جوڑ دیا ہے تو باقی کی کیا بات ہوگی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پیارے لال ﷺ کی شان اور عزمت کیا ہوگی۔

ہمارا ایمان اس وقت کامل یقین ہے جب ہم دل و جان سے اس بات کا یقین کر لیں کہ 12 ربیع الاول کو جناب حضرت محمد مصطفی نبی آخر زمان ﷺ تشریف فرما ء ہوئے اب کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا،ہاں مگر عاشق رسول ﷺ ضرور آتے رہیں گے اور آپ ﷺ کا شان بیان فرماتے رہیں گے۔

میں چھوٹا، میرا منہ چھوٹا، میری ذات چھوٹی، میرا قلم چھوٹا مگر قربان جاؤں سرکار مدینہ ﷺ پر جن کا نام اتنا بڑا ہے کہ مجھ چھوٹے سے بیان کرنا ہمت نہیں۔ یہ ہمت بھی میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اللہ سائیں سے دعا مانگ کر کی ہے کہ اللہ سائیں مجھے اپنے محبوب ﷺ کی شان بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

میں اپنے ان بیان کردہ چند الفاظوں کا اختتام اس سچے واقعے پر کرتا ہوں جو کہ یوں ہے، میرے ایک قریبی دوست گذشتہ پانچ سالوں سے معاشی، ذہنی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ناامید ی تو میں نے اس میں نہیں دیکھی ہاں مگر اللہ سائیں میں آس لگائے بیٹھے تھے کہ کب تو کرم نوازی ہوگی ہی ہوگی۔ کبھی اُس کے حالات خراب تو کبھی بد سے بدتر ہوجاتے بس آپ یوں سمجھ لیں کہ ایک بندے کے پاس بی ایم ڈبلیو ہو اور پھر وہ ہی بندہ سائیکل پر آجائے پھر تھوڑا ہاتھ پکڑے تو فورا کیلٹس کار پر پہنچ جائے اور پھر جو گرے تو سائیکل بھی نصیب نہ ہو۔ ایسے حالات میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ میں نے اس کو ڈاکٹروں کے پاس، حکیموں کے پاس، عالموں کے پاس دیکھا مگر کبھی اوپر چلے جاتے اور کبھی دڑھام سے نیچے گر جاتے اورجب گرتے تو ایسا گرتے جیسے بچپن میں ہم نئی سائیکل سیکھتے وقت گرتے ہیں۔ میں نے بہت سارے وظیفوں کا ورد کرتے بھی دیکھا جو چیز خیر و بھلائی کی ملتی اس کو تھام لیتے مگر ہوتے وہاں پر جہاں پر کھڑے تھے۔

یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک دن یو ٹیوب پر وڈیوز دیکھتے دیکھتے ایک عالم صاحب پر انکی نظر پڑی، نظر کیا پڑی وہ اس کی تقدیر بدلنے کی گھڑی تھی یا یوں سمجھیں کہ اب ادھر سے اس کو راستہ ملنے والا تھا۔ اُس عالم صاحب نے کہا کہ"جو شخص پریشان حال ہو اور وظیفوں کا ورد کرتا ہو اُسے چاہیئے کہ درود کا وظیفہ تھام لے اور سارے وظیفوں کو چھوڑ دے ۔ جس میں انہوں نے جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اپنے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا جس میں آپ ﷺ نے اُس صحابی رضی اللہ عنہ کو اور ہر وقت درود پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی" بس یہ وڈیو دیکھنے کے بعد اس نے بھی درود ابراھیمی کی دوڑ لگادی باقی سارے وظیفوں کو چھوڑ کر اُس نے درود ابراھیمی ذوق و شوق سے پڑھنا شروع کیا اور موصوف خود بتاتے ہیں کہ دو مہینوں کے بعد میرے سارے کام آہستہ آہستہ سنورنے لگے اور یوں سنور رہیں ہیں کہ میں ایک ایک سانس لینے پر اللہ سائیں کا شکر ادا کروں تو بھی ہزاروں سالوں کی زندگی ملنے پر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ 

تبصرے