ٹھٹھہ اب تعلیمی درسگاھ نہیں رہا!
سندھ کی ساحلی پٹی پر بسنے والا شہر ٹھٹھہ کا ماضی جتنا شاندار تھا آج اتنا ہی تباھ و برباد ہوچکا ہے۔
ایچ ٹی سورلی اپنی کتاب شاہ لطیف آف بھٹ میں
لکھتے ہیں "سترویں صدی کا دورہ حکومت مغل خاندان کے پاس تھا اور 1835ء میں
ایسٹ انڈیا کمپنی نے لاھری بندر ٹھٹھہ سے سندھ میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ اُن
دنوں میں یہ شہر سندھ کا دارالحکومت تھا اور سب سے بڑا و شاندار کاروباری مرکز
تھا۔ اُس وقت 3000 سے زائد چھوٹے بڑے کپڑے بنانے کے کارخانے، چمڑے بنانے کے
کارخانے، فرنیچر بنانے کے کارخانے، بیل گاڑی اور تانگے بنانے کے مشہور کارخانے اور
سب سے اہم بات 400 سے زائد مدرسے ہوا کرتے تھے"۔ شہر میں بننے والا تیار شدہ
یا خام مال یورپ اور دوسرے ملکوں تک جاتا تھا اور تعلیمی درسگاھوں سے تعلیم حاصل
کرنے والے تعلیم مکمل کرکے اپنے وطن واپس لوٹ کر دوسروں کو تعلیم کے زیور سے
آراستہ کرتے تھے۔
سندھی زبان کی آج کی صورتخطی کا بنیاد بھی ٹھٹھہ
کے مشہور عالم دین مخدوم ابوالحسن نے رکھا تھا۔ جس کو انیسویں صدی میں انگریزوں نے
زیر غور لاکر مقامی ادیبوں کی مشاورت کے بعد 1870 میں موجودہ سندھی صورتخطی بنائی
اور سندھ میں سندھی زبان کو قومی زبان قرار دیا۔
مگر آج صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے، نہ وہ
کارخانے ہیں اور نہ ہی علمی درسگاھیں رہی ہیں۔ اس وقت پورے ضلعے میں سرکاری تعلیمی
ادارے ویران نظر آتے ہیں۔ لگتا تو ایسے ہے جیسے کسی کی بد دعا یا بری نظر لگ گئی
ہو۔ ان سب باتوں کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ گذری ہوئی حکومتوں نے اس شاندار شہر کو
بچانے کیلئے کونسا کام کیا ہے۔ تو جواب بہت خطرناک حد تک ملتا ہے جسے سن کر رونگٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ میرے ساتھ تو یہ ہوچکا ہے اور اب آپ بھی پڑھ کر اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ کہاں تھے اور کہاں آگئے ہیں۔
· ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ 17-2016 کے مطابق ٹھٹھہ
ضلع، ملک کے 141 اضلاع میں سے 96 نمبر پر ہے۔ جبکہ سندھ کے 24 اضلاع میں سے 14
نمبر پر ہے۔
· ضلعے میں موجود کل سرکاری اسکولوں کی تعداد صرف
1515 ہے۔ جن میں سے 1442 پرائمری سطح کے اسکول ہیں۔
· ان 1515 اسکولوں میں سے 1237 اسکول لڑکوں کہ
جبکہ 278 صرف لڑکیوں کے لیئے ہیں۔
جبکہ سترویں صدی کو دیکھا جائے تو اس وقت 400 سے
زائد مدرسے تھے۔ جن کو اسکولوں کی حیثیت حاصل تھی۔ اتنی بری حالت کہ آنکھوں سے
آنسو نکلیں تو جائیں تو جائیں کہاں۔
اسکولوں کو دیکھیں تو ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اور
گندگی سے بھرا ماحول جس میں کوئی بھی والدین نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے ان خطرناک
عمارتوں کی نیچے پڑھیں۔
سب سے بڑی حیرانگی یہ ہے کہ:
· ٪94
پرائمری اسکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہے۔
·
٪98
اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔
·
٪65
اسکولوں میں بیت الخلا موجود نہیں ہے۔
·
٪54
اسکولوں میں بائونڈری وال نہیں ہے۔
·
٪51
کلاس روم صرف ایک کلاس روم پر مشتمل ہیں۔
· پرائمری سطح پر سراسری طور پر ایک اسکول میں صرف
2 کلاس رومز ہیں۔
اب آپ ہی اندازہ لگائیں کہ اسکولوں کی حالت کیا
ہوگی اور بچے کیسی تعلیم حاصل کرتے ہونگے۔
اب فیصلا عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس بار ووٹ
ان ہی امیدواروں کو دیں جن کے سیاسی ایجنڈا میں تعلیم سب سے اول نمبر پر ہو اور
ٹھٹھہ آنے والے پانچ سالوں میں اور نہیں تو 86 نمبر پر ملک میں آسکے۔
بحوالہ: الف اعلان رپورٹ 2018 سے 2023
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں