صرف ایک اسکول الیکشن تک

 صرف ایک اسکول الیکشن تک


 جون کا مہینہ ایک تو گرم ہوتا ہے اوپر سے بلدیاتی الیکشن کا موسم آگیا ہے۔ بچے گرمیوں کی چھٹیاں مناہ رہے ہیں اور امیدوار اپنی الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔

 بچے جب واپس اپنے اسکولوں باالخصوص سرکاری اسکولوں میں واپس جائیں گے، تو وہاں ان کو وہ ہی ٹوٹا پھوٹا اسکول اور مشکلاتوں سے گھرہ ماحول ملے گا، جس کو یہ دو ماہ پہلے چھوڑ کر نکلے تھے۔ اور امیدوار، ان سرکاری اسکولوں میں بننے والی پولنگ اسٹیشنوں سے منتخب ہوکر بڑے عالیشان اسیمبلیوں میں پہنچیں گے۔

 سب سے حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ یہ جناب جن سرکاری اسکولوں کو پولنگ اسٹیشن بناکر وہاں سے منتخب ہوتے ہیں، واپسی انہی اسکولوں کی ترقی کیلئے صرف ایک فیصد بھی کام نہیں کرتے۔ ہمیں تو لگتا ہے اسکول نہیں ٹشو پیپر ہیں جس کو ایک بار استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔

 ہر الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ جاندار نعرے لگتے ہیں اور واپسی میں کھوکھلے واعدے کیئے جاتے ہیں۔اس بار جب بھی کوئی امیدوار اپنے علائقے میں جاتا ہے تو ان صاحبوں سے براہ راست تعلیم اور صحت کے نعرے لگتے ہیں۔ اس بار ان کی بھی آنکھیں کھلی ہیں کہ اس دفعہ عوام سے اتنا آسان نہیں ہے ووٹ لینا؟ ووٹ کی کتنی اہمیت ہے وہ بھی اس مرتبہ بڑے صاحبوں کو معلوم ہوا ہے۔

اس مضمون کو لکھنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ بڑے صاحبو آپ بھی اب آگے بڑہیں اور سوچیں کہ 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جاتے ان کیلئے کیا کیا جائے؟ ہاں اس بار کڑی دھوپ میں بیٹھ کر پڑھنے والے بچوں کے لیئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا!

 اس لیئے آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان پھولوں کو مہکانے کیلئے آپ کو الیکشن سے پہلے کیا کرنا ہے۔ الیکشن میں ایک امیدوار اپنی الیکشن مہم میں لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے تو اس خرچے میں اس مرتبہ یہ بھی شامل کرے کہ اپنے علائقے کا کوئی بھی ایک سرکاری اسکول منتخب کرے۔ جس میں بنیادی ضرورتوں میں سے اہم مسئلا پانی کا مسئلا ہے وہ حل کروانے میں مدد کرے تو ان کی الیکشن مہم میں تین چاند ضرور لگ جائیں گے۔ کیونکہ یہ زمانہ تھری ڈی کا ہے اور آپ بے فکر ہوجائیں کہ تین چاند آپ کی پہچان کیسے بنیں گے۔

 اگر بڑے صاحب صرف اسی ایک کام پر دل کھول کر کام کرتے ہیں تو ملک کے 141 اضلاع میں سے ہر ایک ضلعے میں 50 کے قریب اسکولوں میں الیکشن تک کم از کم پانی کا تو کچھ مسئلا حل ہوسکتا ہے۔ باقی مسئلے حل کروانے کے لیئے عوام کو پر زور آواز بلند کرنی ہوگی کیونکہ جب تک عوام بولی گی نہیں مسئلے، مسئلے ہی رہیں گے۔

تبصرے