ڈڈگریاں کام نہیں آئیں
آپ نے اکثر ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں کے پیچھے یہ جملہ ضرور پڑھا ہوگا کہ "ہمت ہے تو کراس کر ورنہ برداشت کر"۔ یہ جملا سب سے پہلے کس نے تخلیق کیا یہ میں نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ جملا ضرور کسی نہ کسی پرائمری پاس پینٹر نے کیا ہوگا جو کہ بڑی گاڑیوں کو چاروں طرف سے نقش و نگار بناتا ہے مگر ان بیچاروں کے پاس کسی کالج یا یونیورسٹی کی کوئی بھی ڈگری نہیں ہوتی۔
یہ بچپن کی عمر میں صرف اپنا پیٹ بھرنے کیلئے
کسی نہ کسی مزدوری پر نکل پڑتے ہیں اور چھوٹے بن جاتے ہیں۔ او چھوٹے ایدھر آ، او
چھوٹے یہ نٹ نکال، او چھوٹے دودھ پتی چائے بول کر آ، او چھوٹے گھر سے کھانا لے کر
آ، او چھوٹے یہ کر، او چھوٹے یہ نا کر۔ بس چھوٹا یہ وہ کرتے کرتے ایک دن
"استاد جی" بن جاتا ہے اور اس کے پاس اور چھوٹے کام کرنے والے آجاتے ہیں۔
میرے بابا گائوں کے ایک اسکول میں پڑھے اور صرف
پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ بابا کے ابا یعنی میرے دادا سائیں ایک چھوٹے زمیندار
تھے تو ان کے کام کاج بابا کو سنبھالنے پڑ گئے۔ بابا کو ویسے بھی پڑھائی لکھائی کا
شوق نہیں تھا تو وہ جب لکھنے پڑھنے کا کام چھوڑنے لگے تو پھرسب بھائیوں میں چھوٹے
تھے تو چھوٹے ہی رہے۔
میرے بابا نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو
بدلنے کا بھی سوچہ اور وہ ایک دن کسی قریبی رشتیدار جن کا نام عبدالغفور صاحب تھا
ان کے پاس شہر آگئے کہ مجھے کسی نہ کسی کام پر لگائیں۔ آپ ایسی حالت میں پہنچ کر
اگر فرمائشی پروگرام کرنا شروع کردیں تو سامنے والا یا سامنے والے آپ کے نخرے
برداشت نہیں کریں گے کیونکہ اُس وقت آپ زیرو ہیں اور آپ کو ہیرو بننے میں کافی وقت
لگے گا۔ جس میں افضل ایمانداری اور اسکے بعد محنت درکار ہے۔
جن صاحب نے بابا پر مہربانی کی تھی ان کا پرنٹنگ
پریس کا کاروبار تھا تو بابا بھی اس کاروبار میں بطور ایک ملازم بھرتی ہوئے۔ اپنی
ایمانداری اور محنت سے دوسرے کام کرنے والے ساتھیوں سے بھرپور تعاون کیا۔ محنت،
لگن اور ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اپنے ان سارے کاموں کو دیکھتے ہوئے
ان کے صاحب نے بدین میں ایک پرنٹنگ پریس کھول کر دی جو کہ پہلے سے بدین کے ایک
نامور اور تاریخدان شخصیت شیخ محمد سومار چلا رہے تھے۔
ایک چھوٹی سی شروعات سے اپنے ہمراہ بھائی محمد
خان کو بھی ساتھ لیا اور دونوں نے ملکر خوب ایمانداری، محنت اور لگن سے 2 ملازموں
سے 20 ملازموں تک کا کارواں بنایا۔
میں اپنے بابا کا سب سے بڑا بیٹا ہوں اور میری
ہر وہ خواہش پوری کی جو کہ میری ضرورت بھی تھی اور ضرورت نہیں بھی تھی۔
اللہ کی مہربانی ہے کہ میں نے جو تعلیم یعنی
ڈگریاں حاصل کی ہیں وہ ہمارے معاشرے میں کم ہی لوگ حاصل کرپاتے ہیں۔ یعنی دو
گریجوئیٹس ڈگریز اور دو ماسٹرز ڈگریز اور درجنوں سرٹیفکیٹ کورسز کیئے ہوئے ہیں۔
ایک عام آدمی یا خاندان کے سامنے تو میں ایک عجیب قسم کا بندہ ہوں جس کے پاس اتنی
ساری ڈگریاں ہیں پھر بھی سرکاری نوکری نہیں۔
ہمارے معاشرے میں سرکاری نوکری کو اتنی اہمیت دی
جاتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی آدھی زندگی تو سرکاری نوکری اور خوبصورت چھوکری کو
ڈہونڈے میں لگ جاتی ہے۔ باقی جو زندگی بچتی ہے وہ بس یہ ہی رونا روتا ہوتا ہے کہ
سرکار نے ہمارے لیئے کچھ نہیں کیا۔ تو میں بھی آپ سے یہ ہی سوال کرتا ہوں کہ جناب
پھر آپ نے اپنے لیئے یا اپنے ملک کے لیئے کیا، کیا ہے۔
میں آپکو پہلے سی ہی بتا کر آیا ہوں کہ میرے
بابا پرنٹنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور میں نے بھی انٹرمیڈیئیٹ کرکے 2000 میں اُس کاروبار
میں اپنے بابا کے ساتھ ہاتھ بٹائے اور خوب ایمانداری اور محنت سے پیسہ اور نام
کمایا۔ اپنی والدہ کے کہنے پر 2015 تک خاندانی کاروبار میں شامل رہا۔ اسکے بعد
اپنا ایک الگ پرنٹنگ پریس لگایا مگر بری طرح سے ناکام رہا۔
جس کے بعد ورچوئل یونیورسٹی بدین کیمپس میں ایک
معمولی سی سیٹ پر آفس اسسٹنٹ کے طور پر فرائض سر انجام دیئے۔ جہاں پر مقامی
انتظامیہ نے انتہائی بدترین قسم کا رویہ رکہا اور ایسی الٹی سیدھی حرکتیں کی کہ یہ
بندہ بس وہاں سے جان بچاکر نوکری چھوڑ کر 2018 میں بھاگا۔
اور پھر سے جنوری 2019 میں ایک پرنٹنگ پریس کا
کاروبار کھولا جس کا نام "لکھپڑھ پرنٹرز" رکھا۔ میں سارا کا سارا گھوم
پھر کر وہاں آکر کھڑا ہوگیا جہاں پر میرے بابا نے جو کچھ مجھے ہنر دیا وہ ہی میرا
سارا کچھ اثاثہ ہے۔
میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل
نہ کریں مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ آپ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہنر بھی ضرور سیکھیں جو کہ
آپ اور آپکے ملک کی ترقی کیلئے لازمی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں