20
روپے کا ایک گدھا
آپ نے یقینن یہ محاورہ تو سنا ہوگا 10 روپے کی
برف اور 50 روپے کی گدھا گاڑی۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ اگر کوئی سامان خرید رہے ہیں
تو اس سامان کی قیمت سے زیادہ اس کو ساتھ لے جانے میں کرایہ لگتا ہے۔
اگر آپ محلے کی کسی دکان سے کوئی خریداری کر رہے
ہیں تو دکاندار آپکو سامان پلاسٹک کے تھیلے میں لگاکر دیتے ہیں۔
اگر آپ بائیک پر ہیں تو پھر آپ یقینن دکاندار سے
فرمائش کرتے ہیں کہ جناب تھیلی ڈبل کر دیں میں بائیک پر ہوں۔
اب تو چھوٹے دکانداروں کی بھی عادت سی ہوگئی ہے
کہ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بائیک پر ہیں؟ اگر آپکا جواب ہاں میں ہے تو وہ آپ کی
ڈمانڈ سے پہلے ہی آپ کے سامان کو ڈبل تھیلے میں پیک کر دیتے ہیں!
اب آتے ہیں Branded Outlets پر جن کو عام پاکستانی
"مھنگی دکان" کا خطاب دیتے ہیں۔ مھنگی دکان والوں کی کچھ تعداد ایک Marketing Tool استعمال کر رہی ہے۔ مگر میری نظر
میں یہ ٹول Demarketing ہے۔
آپ کسی بھی ایسے برانڈیڈ دکان سے کوئی چیز
خریدتے ہیں تو سامان آپ کو نائیلون کے تھیلے میں دیا جاتا ہے جس کی قیمت 20 روپے
یا زیادہ بھی لی جاتی ہے۔
اگر میں اپنی بھی بات کروں تو اعتبار کریں 10
ہزار کی خریداری کرنے کے بعد اگر کیش کائونٹر پر تھیلے کی قیمت لگائی جاتی ہے تو
یہ اس طرح ہے جیسے حکومت اس وقت نان فائلر کی حالت کر رہی ہے۔
بندہ سوچتا ہے کہ یار یہ کونسی سی بدتمیزی ہے کہ
آپ سامان خریدو اور اسکو رکھنے کے لیے تھیلے کے 20 روپے بھی ادا کرو!
شروعات میں جب یہ تھیلے والی رقم کی مہم کا آغاز
ہوا تھا تو اس وقت میں نے کیش کائونٹر پر اکثر گاہکوں کو تیش حالت میں دیکھا کہ
بھئی یہ کونسی بات ہے کہ سامان خریدو اور تھیلے کے پیسے بھی ادا کرو ورنہ ہاتھ میں
لے جاؤ!
اسی کشمش میں بہت سارے گاہک سامان کوغصی کی حالت
میں چھوڑ جاتے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔
کمپنی یا برانڈ کے مالکان سے گذارش ہے کہ آپ
ایسی پالیسیاں نہ بنائیں جیسی ہماری حکومتیں بناتی ہیں جس میں عوام کا کوئی فائدہ
نہیں ہوتا اور سارا کا سارا مزہ اشرافیہ لوٹ جاتی ہے۔
ہاں اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو ہم بھی آپ سے یہ
کرنے کے لیے بلکل تیار ہیں کہ آپکو کسی دن اپنی دعوت پر بلائیں اور جب کھانا لگے
تو کہیں جناب کھانا تو ہم نے بنا لیا ہے ہاں اگر آپ اپنے ساتھ برتن لائے ہیں تو
کھانا حاضر ہے کیونکہ ہمارا کام تھا کھانا بنانا اور پیش کرنا ہاں اگر آپ برتن نہیں
لائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں!
لوگ پہلے سے ہی حکومت کی غلط پالیسیوں سے پریشان
ہیں اور کچھ پیسے بچاکر اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ سے خریدنے آتے ہیں تو بجائے ان
کو خوش کرنے کے آپ ان کو مزید ناراض کردیتے ہیں۔
اسلئے میری ہاتھ جوڑ کر گذارش ہے کہ سامان کے
تھیلے کی رقم اپنے گاہک سے لینے کے لئے نظر ثانی کریں۔
سائين بلڪل سهي ڳالهه آهي ان تي نظر ثاني ٿيڻ کپي
جواب دیںحذف کریںTrue… 👍
جواب دیںحذف کریںجی ہاں ہم سے اکثرخریدار 2 تھیلیوں کی ہی ڈمانڈ کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں