ایک بڑا کیلا مفت میں ۔۔۔
مالک کائنات نے انسان کے کھانے پینے کیلئے جو
نعمتیں پیدا کی ہیں۔ اس میں سے فروٹ ایک بڑی نعمت ہے جو کہ کھانے میں بھی فرحت بخش
ہے اور جسم کو اینرجی فراہم کرنے میں بھی معاون کردار ادا کرتا ہے۔
ہم جس فروٹ کی بات کرتے کررہے ہیں اس کا نام کیلا
ہے۔ اب یہ کیلا نام کس شخصیت نے رکھا ہے وہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر ہے بڑا
کمال کا نام واحد بناؤ تو کیلا اور جمع کرو تو کیلے۔
میری قوم کی صفائی ستھرائی کو مد نظر رکھتے ہوئے
اس فروٹ کی سب سے بڑی خاصیت جو مجھے بہترین لگتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کو کھانے کیلئے
آپ کو اسے صاف پانی سے دھونا نہیں پڑتا اور نہ ہی آپ کو صاف پانی سے اپنے ہاتھوں
کو دھونا پڑتا ہے۔
میرے دیس میں صاف پانی کی بہت زیادہ کمی ہے اس
لیئے یہ کیلا صاحب آپ کو خریدنے، کھانے اور بھوک مٹانے میں معاون مددگار ہے۔
اس لیئے میرا مشورہ ہے کہ آپ کیلے کھائیں اور زندگی
کو انجوائے کریں۔ میں نے انجوائے اس لیئے لکھا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں شاید
یہ ہی وہ فروٹ ہے جو کہ آپ اپنی جیب کو دیکھ کر کوئی بجیٹ بنائے آپ 100 روپے میں 1
درجن کیلے خرید سکتے ہیں۔
دیس کے غریب گھرانوں میں ویسے بھی بچوں کی تعداد
امیروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور ایک غریب اپنے بچوں کو اگر فروٹ جیسی نعمت
کھلائے تو وہ کیلا ہی ہے جو کہ 100 روپے میں 12 کیلے آپ کے کنبے کیلئے کافی جنگجو
ثابت ہونگے۔
میں بھی ایک ٹھیلے سے باقاعدہ طور پر کیلے خریدتا
ہوں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کے مجھے کیلے پیکج میں ملتے ہیں۔
وہ پیکج یہ ہے کہ میں جس ٹھیلے سے کیلے شریف
خریدتا ہوں وہ ایک نوجوان ہے اور میں اس کا مسلسل کسٹمر ہونے کے ناتے 100 روپے میں
1 درجن کیلے ملتے ہیں۔
ایک کیلا مجھے کیلے خریدنے سے پہلے کھانے کو بڑے
شاھانہ انداز میں پیش کرتا ہے اور پھر ایک مزید کیلا تھیلی میں بھی رکھ دیتا ہے تو
ایسے مجھے پیسے درجن کے دینے پڑتے ہیں اور کیلے 14 مل جاتے ہیں۔
آج میں نے جیسے ہی کیلے خریدے تو کہنے لگا صاحب
آپ آجکل کسی نوکری میں نہیں ہیں کیا؟ میں نے کہا نہیں میں ابھی گھر بیٹھ کر فری
لانسنگ کر رہا ہوں۔
پھر اس نے گذارش کی کہ میں 12 کلاس پاس ہوں اور
فلاں فلاں ادارے میں انٹرویو دے کر آیا ہوں اگر آپ کا کہیں ہاتھ پاؤں لگے تو
مہربانی فرماکر مجھ غریب کو کہیں لگا دیں۔
میں نے اس سے پوچھا کہ میاں یہ ٹھیلا تمہارا
اپنا ہے اور تم اپنا کاروبار کر رہے ہو نوکری سے یہ زیادہ بہتر ہے۔
تو اس نے فورن وہ ہی جوابات دینے شروع کیئے جو
کہ اکثر آپ کو سننے کو ملتے ہیں۔ میں نے سوچا انگریز تو چلے گئے مگر ہمیں غلام
بناکر غلاموں کے حوالے کر گئے ہیں۔ ہم سرکاری نوکری سے نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں
ہیں۔
میں نے اسے مشورہ دیا کہ اپنے کاروبار کو تھوڑا
تبدیل کرو۔ اپنے ٹھیلے پر کیلے کو اس طرح پیش کرو کہ دیکھنے والا ہنس کر تمہارے
پاس آئے اور پھر آئے اور کیلے خریدنے پر آمادہ ہوجائے۔
اس نے پوچھا وہ کیسے۔
میں نے کہا کوئی آکر پوچھے تو بتاؤ 100 روپے
درجن کیلے اور ایک بڑا کیلا کھانے کو مفت میں پیش کرو۔ آجکل لوگ ویسے بھی خوام
خواہ پریشان ہیں اور مسکراہٹیں اور ہنسنا بھولتے جارہے ہیں۔ تم اپنی روزی بھی کرو
اور لوگوں کو ہنساکر خوش بھی کرو۔
میں نے جاتے ہوئے کہا یہ کام تم کرو باقی رزق میں
برکت اللہ تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا۔ آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں