سلام سرکاری استاد جی
میرے ملک میں سرکاری استاد
کی حیثیت اسکرو پانے کی طرح ہے جہاں ضرورت ہو اور جب ضرورت ہو استعمال کرو اپنا
کام نکالو اور پھر ایک جگہ پر یہ کہہ کر رکھ دو کہ اسے سنبھال کر رکہیں یہ کام کی
چیز ہے کام آئی گی۔
اس میں ہنسنے والی
کوئی بات نہیں آپ خود ہی دیکھ لیں۔ جب بھی ہماری حکومت کو کسی کام کو سرانجام دینے
کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ استاد صاحبان سے اپنا کام کرواتے ہیں۔حکمران تو استاد جی
کو استعمال کرنے میں اتنے بے فکر ہیں جتنے ہم اپنی گاڑی میں اسپیئر ٹائر موجود
ہونے کے بعد بےفکر ہوجاتے ہیں۔
آئیئے آپ خود ہیں
ملاحضہ فرمائیں کہ استاد جی کیا کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں:
الیکشن آگیا
الیکشن کا موسم بھی
بہار کی طرح ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے ۔ بہار میں تو ہریالی
پودوں اور درختوں سے ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں الیکشن میں ہریالی پیسوں سے آتی
ہے۔امیر امیدوار غریب کی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے صرف چوانی کا حصہ غریب
پر خرچ کرتا ہے اور بیچارہ غریب ناچ ناچ کر امیر کو جتواکر محل نمہ اسیمبلی میں پہنچا
کر ہی دم لیتا ہے۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ
غریب میں اتنا دم ہے کہ شاعر کی طرح جتنا نکلے کم نکلے۔ غریب دم دار ہے ، غریب ،
غریب ہے اور غریب ہی رہے گا اور استاد ، استاد ہی ہے استاد ہی رہے گا۔
صاحب لوگوں کا کیا
جائے غریب اور استاد میں ۔ یہ دونوں تو اسکے غلام ہی ہیں ۔ جب جی میں آئے بلا لیں
اور جب جی چاہے بھگا دیں۔
لو جی الیکشن آگیا ! دھن دھنا دھن سب سے پہلے استاد جی کی یہ ڈیوٹی لگتی ہے کہ
ووٹر لسٹ بنوانے میں امیدوار اور حکومت کی مدد فرمائیں۔ لو جی ووٹر لسٹ تیار ہوگئی
ہیں۔
استاد جی فرماتے ہیں دوسرا کام حکم فرمائیں۔ ہاں
تو استاد جی دوسرا کام یہ ہے کہ امیدوار کے لئے کوئی تگڑا سا مواد لکھ دیں جس کو
پینافلیکس، پوسٹر، اسٹیکر اور دوسرے چھپائی کے چھوٹے اور موٹے کاموں میں استعمال
کیا جائے۔
ہاں جی یہ بھی ہو گیا
اور کوئی حکم فرمائیں؟ ماسٹر جی حکم کیا فرمانا ہے بس آپ پس پردہ ہم امیدواروں کی
مدد فرماتے رہیں اور جس اسکول میں آپ کی ڈیوٹی ہے وہاں پر ہمارا پولنگ اسٹیشن بھی
ہے بس اس کا خیال رکہئے گا۔
استاد جی امیدوار کے
سارے کام مکمل کرنے کے بعد حکومت کے کام میں لگ جاتا ہے ۔ الیکشن سے ایک دن پہلے استاد
جی اپنا بوریہ بستر باندہ کر سیدھا الیکشن آفیس جاتے ہیں وہاں سے سامان اٹھاکر
سیدھا کسی پولنگ اسٹیشن پر چلے جاتے ہیں۔
الیکشن کے دن بہت
ساری دشمنیاں اٹھاکر اور بے یارومددگار ہوکر الیکشن کے دن شام کے بعد سامان کندھوں
پر لاد کر سیدھا الیکشن آفس جاتا ہے اور اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد سامان
جمع کرواکر تھکا ہارا گھر کو لوٹ جاتا ہے۔
مردم شماری
لو جی مردم شماری
آگئی! مردم شماری لفظ ترجمہ کے لحاظ سے صرف مردانہ لگتا ہے جس میں صرف مرد کا ذکر
ہے عورت کا ذکر نہیں یہ بھی ایک بڑی زیادتی ہے،۔حالانکہ یہاں پر لفظ ہونا چاہیئے
"مردزانہ شماری" جس میں مرد بھی آجاتا ہے اور زنانہ عورت کی نمائندگی
بھی ہوجاتی ہے۔ چلیں جی پھر کبھی سہی اس لفظ کو بھی دیکھیں گے۔
مردم شماری میں بھی
استاد صاحب ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ جناب سب سے پہلے یہ کام کرنا ہے کہ
گھر گھر، گلی گلی، محلہ محلہ جاکر ماسٹر جی کو معلومات اکھٹی کرنی ہے۔
یہ صاحب کڑی دھوپ یا
یکھ سردی میں مارے مارے ایک جگہ سے دوسری جگہ معلومات کو جمع کرکے ایئرکنڈیشنڈ میں
بیٹھے بڑے صاحبوں کے حوالے کرتے ہیں اور وہ صاحب اپنے حساب کتاب سے معلومات کی
جانچ پڑتا ل کرکے ماسٹر جی کی معلومات کومروڑ کر پیش کردیتے ہیں۔
جب یہ معلومات منظر
عام پر آجاتی ہے تو بہت سارے ہم وطنو سے ناانصافی ہوجاتی ہے۔ ہاں اس ناانصافی میں
استاد جی بلکل بری ہیں۔ یہ بیچارے تو صرف کھانے پکانے والے ہیں اور اس کھانے کو
تقسیم کرنے والے تو بڑے صاحب ہیں نہ! اب یہ بڑے صاحب کس کو کتنا دیتے ہیں یہ تو
قسمت کی بات ہے۔ کسی کو سارے طعام ملتے ہیں، کسی کو کھرچن ملتی ہے، کسی کو صرف یہ
بتایا جاتا ہے کہ کھانا کہا کر جائیئے گا اور بس وہ انتظار کر کر کے مرجاتے ہیں
اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
قدرتی آفت
اللہ رب العزت بڑا
مہربان اور رحیم و کریم ہے ۔ یہ اللہ کریم کا شان ہی نہیں ہے کہ اپنے بندوں کو
عذاب دے بلکہ بندے خود عذاب کو باربار بلاتے رہتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کسی کو بار بار
بلاتے رہیں گے تو ایک دن تو اسکا بھی آئے گا پھر آر یا پار۔
ہمارے ملک میں قدرتی
آفتیں اتنی نہیں آتی جتنی بنائی جاتی ہیں۔ میں ایک ساحلی پٹی کےضلع کا رہنے والا
ہوں جہاں پر ہر سال قدرتی آفت کو دعوت دے کر بلایا جاتا ہے اور اس دعوت میں کیا
کیا اور کچھ کچھ نہیں کیا جاتا وہ ہمارا اس جگہ موضوع نہیں ہے۔
آپ ملک کے جس جس کونے
میں رہتے ہیں وہاں پر آپ خود ہی معلومات دے سکتے ہیں کہ ہاتھ سے پیدا کی ہوئی آفت
کو قدرتی آفت کا نام دے کر پھر استاد جی سے معلومات کٹھی کی جاتی ہیں کہ کتنا کتنا
نقصا ن ہوا ہے ۔
اس کام کے لیے بھی
استاد جی کو مدعو کیا جاتا ہے اور استاد جی ٹھک سے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ نوکری جو کرنی ہے صاحب۔ اگر
ٹھیک طریقے سے نہ کی تو پھر بدلی پہ بدلی اور پھر استاد بدلتا اور شہر شہر گھومتا
رہتا ہے۔
اتنی ساری باتیں ہونے
کے باوجود بھی آج سرکاری استاد اپنے کام کو لگن سے کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
آپ یہاں پر ان استاد کا بھی ضرور سوچ رہے ہونگے کہ بہت سارے سرکاری استاد اسکول
ٹھیک سے نہیں جاتے اور نہ پڑھاتے ہیں اور نہ ہی اپنی ذمیواری نبھاتے ہیں۔ میری نظر
میں ایسے استاد ، استاد نہیں وہ جانو جرمن ہیں استاد ایک اہم اور ذمیوار بندے اور
بندی کا نام ہے ایرے گیرے کا نام نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں