عید کے بعد دیکھیں گے؟
مارچ کے مہینے میں اسلامی مہینہ رمضان بھی ساتھ میں تھا جس
کی رحمتیں اور برکتیں اور کسی مہینے میں انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتیں۔
رمضان ختم ہوتے ہی شوال کی پہلی تاریخ کو عید ہوتی ہے جسے
عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ عید، عید ہوتی ہے اور بس ہماری تو عید ہی ہوتی ہے۔
رمضان کے مہینے کا آخری ہفتہ اور شوال کا پہلا ہفتہ ہماری
قوم بڑے ٹاٹھ باٹھ میں ہوتی ہے۔ ہم کام تو کرتے ہیں مگر سلیقے سے نہیں کرتے۔
اس لیئے آپ عید آنے سے ایک ہفتہ پہلے کسے کے پاس کام کے لئے
جائیں گے تو یہ ہی جواب ملے گا "ارے صاحب! عید کے بعد دیکھیں گے"۔
چلیں جی ٹھیک ہے عید کے بعد دیکھیں گے۔ آپ بھی دیکھیں گے
اور ہم بھی دیکھیں گے۔ میاں مگر دیکھیں گے وہ ہی جو گذشتہ 75 سالوں سے دیکھتے ہوئے
آرہے ہیں۔
کچھ نیا کرنے اور دیکھنے کو جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہا ہے
وہ ہم نہ دیکھیں گے اور نہ ہی کریں گے۔ بس ہم وہ کریں گے جو ہم سے کروایا جا رہا
ہے اور ہم کرے جارہے ہیں۔
بھلا آپ ہی بتائیں یہ کونسی منتق ہے کہ بندہ کسی کام کے لئے
جائے جو اس وقت ضروری بھی ہو اور آپ کو سامنے سے جواب ملے "عید کے بعد دیکھیں
گے"۔
چلیں ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ عید کے بعد دیکھیں گے۔ اور
پھر آپ کو عید کا دن گزرنے کے بعد مزید ایک ہفتہ اور انتظار کرنا پڑتا ہے کہ صاحب
چھٹیاں منا کر کب آئیں گے اور کب کام پر بیٹھیں گے۔
یہاں پر میرا مطلب صاحب اس بندے کو مخاطب ہونا ہے جس میں آپ
کا کام پڑا ہے۔ پھر چاہے وہ صاحب گریڈ ایک کا ہو یا گریڈ 22 کا ہو۔ اور یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ وہ صاحب ملازم ہو یا سیٹھ ہو۔ مگر ہے تو صاحب نہ!
کیونکہ یہ میرے ملک کا دستور ہے کہ جس کسی کے پاس بھی جتنی
طاقت ہے وہ اس کا استعمال کرنا خوب جانتا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ طاقت
کا ہمارے ہاں زیادہ تر ناجائز استعمال ہی ہوتا ہے۔
آپ جتنے بڑے ہیں آپ اتنے ہی طاقت ور ہیں۔ اور آپ جتنے چھوٹے
ہیں آپ اتنے ہی اپنے آپ کو مظلوم رکھتے ہیں۔ نہ طاقت ور بدلتا ہے اور نہ ہی مظلوم
کو اپنی مظلومیت بدلنی ہے۔
جب کام کا وقت ہوتا ہے تو ہم کام میں لگ جاتے ہیں مگر اس
کام میں نہیں دوسرے کاموں میں اپنا وقت، توانائی اور پیسہ ضایع کردیتے ہیں۔
جب وقت، توانائی اور پیسہ چلا جاتا ہے تو پھر ہم اپنے سارے
الزامات اپنے سر سے اٹھا کر دوسرے کے سر پر ڈال دیتے ہیں یا ڈالنے کی ہر ممکن کوشش
کرتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ ہمیں اپنی سانس کی کوئی گارنٹی نہیں
ہے۔ اور نہ ہی اللہ نے ہمیں کوئی ایکسپائیری ڈیٹ دی ہے کہ فلاں بندہ اس وقت دنیا
چھوڑ جائے گا۔
اللہ رب کریم انسان کی موت کا وقت صرف ایک مہینہ پہلے ہی
بتا دیں پھر بھی حضرت انسانوں میں بہت سارے ایسے ہیں جو کہ بہت ساری مشکلاتیں
دوسروں کے لئے اس لئے پیدا کر جائیں گے کہ ہم تو ڈوبے صنم تمہیں بھی لے ڈوبے۔
یا یہ کہ میں تو ویسے بھی جا رہا ہوں بھلا جاتے جاتے ان کا
بھی حال ایسا کر جاؤں کہ پتہ چلے کہ صاحب ہم بھی کوئی چیز تھے۔
ہمارا دماغ پروسیسر ہے، دل بیٹری ہے اور چارجر ہمارا کھانا
ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنا دماغ کام کے وقت کام میں رکھیں، دل سے کریں اور کھانا
حلال کرکے کھائیں تو ہم زندگی کو ایک بہترین راہ پر چلا سکتے ہیں۔
ہمیں تھوڑی سے ہمت کرکے ذمیوار بننا ہوگا۔ ذات، پات، نسل،
قوم، برادری کو کام کے وقت اپنی ذمیواری سمجھ کر نبھانا ہوگا جس کی آپکو تنخواہ
ملتی ہے یا آپ کوئی چیز خریدتے یہ فروخت کرتے ہیں۔
اپنے کام کو اور اپنے دن کو ذمیواری سے نبھائیں آج کردیں گے
یا کل کریں گے کی بجائے اپنے سے عھد کریں کہ انشاءاللہ آج ہوجائے گا کل کس نے
دیکھا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں